مصر کی وزارت انصاف کے ایک سینیر عہدے دار عبدالاعظم الاشعری نے اطلاع دی ہےکہ اخوان المسلمون کے قریباً پونے چھے سو چھوٹے بڑے عہدے داروں کے اثاثے ضبط کر لیے گئے ہیں۔
انھوں نے منگل کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ ایک وزارتی کمیٹی نے اخوان المسلمون کے پانچ سو بہتر عہدے داروں کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
وزارت انصاف کا یہ نیا حکم اخوان المسلمون کے خلاف جاری وسیع تر کریک ڈاؤن کا حصہ ہے۔اس کے تحت مصر کی ایک عدالت نے پہلے ملک کی اس سب سے منظم اور قدیم جماعت پر پابندی عاید کردی تھی اور اس کے بعد فوج کی نگرانی میں قائم سیکولر عبوری حکومت نے گذشتہ ہفتے اخوان کو ایک دہشت گرد تنظیم قراردے دیا تھا۔
عبوری حکومت نے مصر میں حالیہ بم دھماکوں کے ردعمل میں اخوان کو دہشت گرد گروپ قرار دے کر اس پر پابندی عاید کی ہے لیکن اس کے خلاف عوام کے سامنے
دہشت گردی کے کسی واقعہ میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
اخوان المسلمون نے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور تشدد کی مذمت کی ہے۔اس کے حامی طلبہ اور عام شہری مسلح افواج اور ان کے تحت عبوری حکومت کے خلاف روزانہ ہی احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں اور برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
مصری حکومت نے گذشتہ منگل کو منصورہ شہر میں ایک سکیورٹی عمارت میں بم دھماکے کے ایک روز بعد اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قراردیا تھا۔اب وہ عرب لیگ کے رکن ممالک پر بھی زوردے رہی ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں اور 1998 میں طے شدہ انسداد دہشت گردی معاہدے پر عمل درآمد کریں تاکہ اخوان المسلمون کے لیے بیرون ملک سے فنڈز کی فراہمی اور حمایت کو روکا جا سکے۔مصر نے عرب لیگ کے رکن ممالک سے اخوان المسلمون سے وابستہ مطلوب مگر مفرور اسلام پسندوں کو بھی حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔